Thursday, June 27, 2013

Inferno ( انفرنو)




ڈین براون کے ناولز کی میں ہمیشہ سے فین تھی۔ مجھے یاد ہے ہائی سکول میں میں نے انکا پہلا ناول "دا ونشی کوڈ" پڑھا تھا اور انکے سمبلز کے استمال اور سیکرٹ سوسایٹیز کے بارے میں انفارمیشن نے مجھے کافی متاثر کیا تھا۔ اس کے بعد ایک عرصے تک میں سیکرٹ سوسایٹیز کے بارے میں تحقیق کرتی رہی اور آج بھی جب وقت ملے یہ کام کرتی رہتی ہوں۔ حال ہی میں انکا نیا ناول "انفرنو" شائع ہوا ہے ۔ کچھ دن پہلے اسے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ انکا یہ حالیہ ناول " گلوبل اوور 
پاپولیشن" اور " ٹرانس ہیومنزم" کی تھیمز پہ لکھا گیا ہے۔

"گلوبل اوور پاپولیشن" کا ٹاپک نیا نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں "مالتھس تھیورم" ایک
 وقت میں کافی مشہور ہوا۔ اس تھیوری کے مطابق، جس رفتار سے دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے ، مستقبل قریب میں غذائی قلت کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ مالتھس کے مطابق، قدرتی آفات جیسے سیلاب، مخلتف وبائیں، اور قحط وغیرہ اس بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کا ایک قدرتی زریعہ ہیں تا کہ دنیا کی کل آبادی اور غذائی وسائل میں ایک توازن برقرار رہے۔ اس کتاب میں بھی دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

کتاب کی دوسری تھیم "ٹرانس ہیومنزم"ہے جو کہ جنیٹک انجیرنگ کی ایک فیلڈ ہے۔
 اس کے ذریعے مستقبل میں بہت سی بیماریوں کا علاج اور انسانی عمر کو بڑھانے کے طریقوں پر ریسرچ شامل ہے۔ ٹرانس ہیومنزم کی ریسرچ گو اچھے مقاصد کے تحت کی جا رہی ہے لیکن کتاب کے مصنف کے مطابق اسکا استمال بعض حکومتوں یا بعض عناصر کے خاص مقاصد کو پورا کرنے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں ٹرانس ہیومنزم کی فیلڈ کا استمال ایک ایسا مہلک وائرس بنانے کے لئے کیا گیا ہے جس سے دنیا کی آبادی کو کم کیا جا سکے۔

گو کہ یہ ایک فکشن ناول ہے لیکن "گلوبل اوور پاپولیشن" اور "ٹرانس ہیومنزم" کی دونوں تھیمز بلکل حقیقت پر مبنی ہیں۔ آج سائینس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ وہ مختلف نینو ٹیکنالوجیز کی مدد سے وائرسزز تیار کر سکتی ہے۔ ایڈز اور مختلف الفلوئنزا وائرسز اسکی کھلی مثال ہیں۔ ایڈز وائرس کا ٹیسٹ جس طرح افریکہ میں ویکسینیشن مہم کے تحط کیا گیا، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

جہاں ایک طرف ٹرانس ہیومنزم ٹیکنالوجی کا استمال وائرس بنانے کے لیئے کیا جا
 سکتا ہے وہیں دوسری طرف اس ٹیکنالوجی کی مدد سے انسان کی عمر اور اسکی ذہانت کو بھی سپیشل چپس کی مدد سے بڑھایا جا سکتا ہے۔ جہاں ایک طرف یہ اچھی بات ہے وہیں دوسری طرف اس کے نقصانات بھی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان معاشرے کے مختلف لوگوں کے درمیان پہلے سے موجود فاصلے کا اور زیادہ بڑھنا ہو گا۔ ظاہر ہے یہ ٹیکنالوجی اگر منظر عام پر آتی ہے تو سب سے پہلے اسے امیر اور صاحب حثیت لوگ اور ملک ہی استمال کریں گے اور یہ فیصلہ بھی کریں گے کہ اسےکون استمال کر سکتا ہے اور کون نہیں۔ تو ذرہ اندازہ لگائیں کہ جو دنیا پہلے ہی امیر اور غریب کے درمیان بٹی ہوئی ہے وہ مزید ذہین اور کم ذہین اور شاید اعلی انسان اور نچلے انسانوں جیسی مزید تقسیم کا شکار ہو جائے۔ اس طرح آنے والے مستقبل میں ہم آگے جانے کے بجائے ڈارک ایجز کے ایک نئے دور میں داخل ہو جایئں گے جو ہم سے ہماری بچی کچھی انسانیت اور انسانی تہذیب اور ولیوز بھی چھین لےگا۔۔۔        

1 comments:

aali said...

Since you are interested in occult stuff, might want to check out the online clip series called, "The Arrivals". But watch this series with caution. There are exaggerations as well as unnecessarily explicit material. But you might find some weight in the overall theme, and contrast that to the glorification in Dan Brown's novels.

Post a Comment

Powered by Blogger.
 
;