Tuesday, June 18, 2013

شہاب نامہ



بہت عرصے بعد کسی مصنف یا کسی کتاب نے اس طرح متاثر کیا۔ ہم عموماً بہت سی کتابیں پڑھتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ کتابیں اپنی چھاپ آپکے ذہن پہ چھوڑ  دیتی ہیں اور آپ کو اپنے سحر میں کچھ اس طرح سے جکڑ لیتی ہیں کہ آپ غیر ارادی طور پر اس کتاب سے حاصل ہوۓ اسباق کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شہاب نامہ بلکل ایسی ہی ایک کتاب ہے۔ یہ قدرت الله شہاب صاحب کی سوانح عمری ہے جو انہوں نے ابنٰ انشا کے زور دینے پہ لکھی۔ اس کتاب میں انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے انڈین سول سروس اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان سول سروس میں پیش آنے والے تجربات و واقعات کو قلمبند کیا ہے۔ 1950 سے 1970 کے عرصے کے دوران وہ مختلف صدور کے سیکرٹری کے فرایض سر انجام دیتے رہے اور اس طرح اس دور کے سیاسی منظر نامے کی اندر کی خبروں سے واقف تھے جنکا ذکر انہوں نے اس کتاب میں بھی کیا ہے۔  انکی سیاسی اور علمی بصیرت کے علاوہ ایک اور قابل ستائش با ت انکی مذہبی و روحانی  وابستگی بھی ہے۔ اس کتاب میں بہت بار انہوں نے ایسے واقعات کا ذکر کیا ہے جو انکی مذہبی وابستگی و بصیرت کا کھلا ثبوت ہیں۔  
اس کتاب میں سے کچھ پسندیدہ اقتباسات
  1. "ہم پاکستانی صرف اس وجہ سے بنے کہ ہم مسلمان تھے۔اگر افغانستان،ایران، مصر، عراق اور ترکی اسلام کو خیر باد کہہ دیں تو پھر بھی وہ افغانی، ایرانی، مصری، عراقی اور ترک ہی رہتے ہیں۔ لیکن ہم اسلام کے نام سے راہ فرار اختیار کریں تو پاکستان کا اپنا کوئی الگ وجود نہیں قائم نہیں رہتا۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
  1.  اگلے روز انہوں نے مجھے مدینہ منورہ سے رخصت کردیا میں نے بہت عذر کیا کہ میرا یہاں سے ہلنے کو جی نہیں چاہتا لیکن وہ نہ مانے فرمانے لگے پانی کا برتن بہت دیر تک آگ پر پڑا رہے تو پانی ابل ابل کر ختم ہو جاتا ہے اور برتن خالی رہ جاتا ہے دنیا داروں کا ذوق شوق وقتی ابال ہوتا ہے کچھ لوگ یہاں رہ ر بعد میں پریشان ہوتے ہیں ان کا جسم تو مدینے میں ہوتا ہے لیکن دل اپنے وطن کی طرف لگا رہتا ہے اس سے بہتر ہے کہ انسان رہے تو اپنے وطن میں مگر دل مدینے میں لگا رہے "
618 شہاب نامہ صفحہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  1. ایک زمانے میں ملّاا اور مولوی کے القاب علم و فضل کی علامت ہوا کرتے تھے لیکن سرکار انگلشیہ کی عملداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا، اسی رفتار سے ملّا اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا۔ رفتہ رفتہ نوبت بایں جارسید کہ یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کی ترکش کے تیر بن گئے۔ داڑھیوں والے ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملّا کا لقب ملنے لگا۔ کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا۔ مسجدوں کے پیش اماموں پر جمعراتی ، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذئے ملّاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں۔ لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں خس کی ٹٹیاں لگاکر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟

    دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نزدیک، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سرچھپا کر بیٹھ رہا تھا۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی، نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ برہام پور گنجم کے گاؤں کی طرح جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہوچکی تھی، ملّا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔

    یہ ملّا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار رہے اور جب سیاسی میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعداد و شمار کی جنگ ہوئی تو ان سب کا اندارج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا۔ برصغیرکے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا
    .....................

    جس مقام پر اب منگلا ڈیم واقع ہے وہاں پر پہلے میرپور کا پرانا شہر آباد تھا_جنگ کے دوران اس شہر کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بنا ہوا تھا_ایک روز میں ایک مقامی افسر کو اپنی جیپ میں بٹھائے اس کے گرد و نواح میں گھوم رہا تھا راستے میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اس کی بیوی ایک گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے_دونوں کے کپڑے میلے کچیلے اور پھٹے پرانے تھے،دونوں کے جوتے بھی ٹوٹے پھوٹے تھے_انہوں نے اشارے سے ہماری جیپ کو روک کر دریافت کیا"بیت المال کس طرف ہے؟" آذاد کشمیر میں خزانے کو بیت المال ہی کہا جاتا ہے_
    میں نے پوچھا_بیت المال میں تمہارا کیا کام؟_
    بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا_میں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میرپور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں،اب انہیں اس "کھوتی" پر لاد کر ہم بیت المال میں جمع کروانے جا رہے ہیں_
    ہم نے ان کا گدھا ایک پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں چھوڑا اور بوریوں کو جیپ میں رکھ کر دونوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیا تا کہ انہیں بیت المال لے جائیں-
    آج بھی وہ نحیف و نزار اور مفلوک الحال جوڑا مجھے یاد آتا ہے تو میرا سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ کے اندر میں ان دونوں کے برابر کیوں بیٹھا رہا_مجھے تو چاہیئے تھا کہ میں ان کے گرد آلود پاؤں اپنی آنکھوں اور سر پر رکھ کر بیٹھتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے پاکیزہ سیرت لوگ پھر کہاں ملتے ہیں۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     بہت سے لوگوں کے نزدیک پاکستان کی سلامتی اور استحکام کا راز فقط اس بات میں مضمر ہے کہ حالات کے اتار چڑھاؤ میں انکی ذاتی اور سراسر انفرادی مفاد کا پیمانہ کس شرح سے گھٹتا اور بڑھتا ہے۔۔۔ ایسے لوگ قابلِ رحم ھیں ۔۔۔وہ بنیادی طور پر نہ تو وطن دشمن ھوتے ھیں نہ ہی ان پر وطن غداری کا الزام لگانا چاھیے ۔۔۔۔مریضانہ ذہنیت کے یہ لوگ ہرص و ہوس کی آگ میں سلگ سلگ کر اندر ہی اندر بذدلی کی راکھ کا ڈھیر بن جانتے ھیں۔۔۔۔

    حوادثِ دنیا کا ہلکہ سا جھونکا اس راکھ کو اڑا کر تتر بتر کر دیتے ہیں۔۔ انکا اپنا کوئی وطن نہیں ھوتا۔۔۔ان کا اصلی وطن محض ان کا نفس ھوتا ھے۔۔۔ اسکے علاوہ جو سر زمین بھی انکی خود غرضی ، خود پسندی، خود فروشی اور منافقت کو راس آئے، وہ وھیں کے ھو رھتے ھیں۔۔۔پاکستان میں اسطرح کے افراد کا ایک طبقہ موجود تو ھے لیکن خوش قسمتی سے ان کی تعداد محدود ھے۔۔۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     





2 comments:

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

بہت عمدہ انتخاب ہے۔ قدرت اللہ شہاب ایک بہت بڑے لکھاری تھے۔ زبان پر ملکہ حاصل نا ہونے کے باوجود انہوں نے متعدد شاہکار تصانیف تخلیق کیں۔
شہاب نامہ کے آخری باب میں انہوں نے پیشینگوئی کی تھی کہ آئندہ جنگیں تہذیب کی بنیادوں پر ہونگیں۔ یہ انکی دوراندیشی کی ایک بڑی مثال تھی۔
لیکن پاکستان اور پاکستانی آرمی کے حوالے سے وہ کچھ زیادہ ہی خوش گمان تھے۔ آج اگر دنیا میں جہاد کا فتویٰ جاری ہوا تو پاکستانی قوم اور پاکستانی افواج کی ایک بہت بڑی تعداد اسکا مذاق بنائے گی۔

Unknown said...

BEAUTIFUL SHARING

Post a Comment

Powered by Blogger.
 
;