Thursday, June 6, 2013

دروازہ بند کرنے کا ہنر







بی جی کا اصلی نام تو کوئی نہیں جانتا تھا لیکن محلے بھر میں وہ بی جی کے نام سے ہی مشہور تھیں۔ وہ محلے کے چھوٹے بچوں کو قرآنِ پاک پڑھایا کرتی تھیں۔ مجھے بھی کچھ عرصہ ان سے قرآن کا علم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ بی جی کی ایک مخصوص بات یہ تھی کہ وہ آنے والے تمام بچوں کو دروازہ بند کرنے کی تلقیں کرتی تھیں۔ بچے عموماً بچپن میں خاصے لاپرواہ ہوتے ہیں۔ کچھ یہی حال میرا بھی تھا، اور میں اکثر اوقات جلدی میں دروازہ مکمل طور پہ بند نہیں کرتی تھی۔ اس پہ بہت بار بی جی سے ڈانٹ بھی کھانا پڑی۔ ایک بار کچھ غصے میں آ کر میں نے بی جی سے کہا کہ اتنا سا دروازہ کھلا رہ جانے سے کچھ نہیں ہوتا بی جی۔ بی جی نے میری طرف دیکھا اور مجھے سبق ختم کر کہ اپنے پاس آنے کی تاکید کی۔ اس بات کا احساس مجھے ہو گیا تھا کہ اب بی جی سے ڈانٹ پڑے گی لیکن خیر ان کے حکم کی لاج بھی رکھنا تھی اس لئے طوعاً کرھاً ان کے پاس جانا ہی پڑا۔

مجھے انہوں نے اپنے پاس بٹھا لیا اور پو چھنے لگیں کہ تمہارے خیال میں، میں دروازہ بند کرنے کی تلقیں کیوں کرتی ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ شائد چونکہ گلی سے مختلف لوگوں کا گزر ہوتا رہتا ہے اس لیے آپ دروازہ بند کرنے کا کہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں اسکی وجہ کچھ اور ہے۔ میرے دریافت کرنے پہ انہوں نے ایک بہت خوبصورت جواب دیا۔ کہنے لگیں کہ


دروازہ بند کرنے کا مطلب، در حقیقت ماضی کا دروازہ بند کر کہ حال میں قدم رکھنا ہے۔ اگر ہم دروازہ کھلا رہنے دیں گے تو ماضی کا خیال بھی ہمارے ساتھ ہی رہے گا۔ 

انکی یہ بات اس وقت تو سمجھ میں نہیں آئی لیکن آج سوچتی ہوں کہ بی جی نے بلکل ٹھیک کہا تھا۔ اگر دروازہ بند نہ کیا جائے تو ماضی کی یاد اور خیالات پیچھا نہیں چھوڑتے اور انہی کی یاد میں ہم اپنے حال کو بھی اجیرن کیے رکھتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے سنہری یا تاریک ماضی کی گٹھریاں اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ اپنے تاریک یا تابناک ماضی کی یادوں میں کھو کر اپنے حال کو سہی طرح نہیں گزار پاتے۔ کچھ یہی حال میرا بھی ہے۔ اپنے ماضی کی یادوں میں کھو کر مجھے اپنے حال کو تسلیم کرنے میں مشکل ہو رہی ہے۔ بی جی کی باتوں کو سوچ کر آج بھی ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ بی جی مجھے آج بھی دروازہ بند کرنے کا ہنر نہیں آیا۔

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.
 
;