Showing posts with label میرے قلم سے. Show all posts
Showing posts with label میرے قلم سے. Show all posts
Wednesday, June 12, 2013 0 comments

اناؤں کے کھیل




یہ اناؤں کے کھیل بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں
سالوں کے رشتوں کو لمحوں میں روند دیتے ہیں
کہ ان میں جیتنا بھی در حقیقت مات ہوتا ہے
کہ ان کا نشانہ فقط ہماری ذات ہوتا ہے
یہ ایسی بیڑیاں ہیں کہ جن میں اک بار جکڑ لۓ جاٰییں
تو پھر رہائی ممکن نہیں رہتی
کوئی زور آزمائی ممکن نہیں رہتی
پھر مقدر میں فقط پچھتاوے رہ جاتے ہیں
عمروں پہ محیط پچھتاوے۔۔۔




Saturday, June 8, 2013 0 comments

جھونکا


آزاد نظم

آج دل بہت اُداس ہے
جانے کس بات کا اِحساس ہے
آج کوئی آ گیا
ہوا کے گزرتے ہوئے جھونکے کی طرح
میں جو خزاں کے پتوں کی طرح تھی
مجھے بکھیر گیا
اب جانے کب تک خود سے لڑنا ہو گا
اُسے بھلانے کے لئے
دل کو سمجھانے کے لیئے
کہ وہ پرائی ہوا کا جھونکا تھا 
اور ایسے جھونکوں کو  
روح میں نہیں اُترنے دیا کرتے۔۔۔
Thursday, June 6, 2013 0 comments

دروازہ بند کرنے کا ہنر







بی جی کا اصلی نام تو کوئی نہیں جانتا تھا لیکن محلے بھر میں وہ بی جی کے نام سے ہی مشہور تھیں۔ وہ محلے کے چھوٹے بچوں کو قرآنِ پاک پڑھایا کرتی تھیں۔ مجھے بھی کچھ عرصہ ان سے قرآن کا علم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ بی جی کی ایک مخصوص بات یہ تھی کہ وہ آنے والے تمام بچوں کو دروازہ بند کرنے کی تلقیں کرتی تھیں۔ بچے عموماً بچپن میں خاصے لاپرواہ ہوتے ہیں۔ کچھ یہی حال میرا بھی تھا، اور میں اکثر اوقات جلدی میں دروازہ مکمل طور پہ بند نہیں کرتی تھی۔ اس پہ بہت بار بی جی سے ڈانٹ بھی کھانا پڑی۔ ایک بار کچھ غصے میں آ کر میں نے بی جی سے کہا کہ اتنا سا دروازہ کھلا رہ جانے سے کچھ نہیں ہوتا بی جی۔ بی جی نے میری طرف دیکھا اور مجھے سبق ختم کر کہ اپنے پاس آنے کی تاکید کی۔ اس بات کا احساس مجھے ہو گیا تھا کہ اب بی جی سے ڈانٹ پڑے گی لیکن خیر ان کے حکم کی لاج بھی رکھنا تھی اس لئے طوعاً کرھاً ان کے پاس جانا ہی پڑا۔

مجھے انہوں نے اپنے پاس بٹھا لیا اور پو چھنے لگیں کہ تمہارے خیال میں، میں دروازہ بند کرنے کی تلقیں کیوں کرتی ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ شائد چونکہ گلی سے مختلف لوگوں کا گزر ہوتا رہتا ہے اس لیے آپ دروازہ بند کرنے کا کہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں اسکی وجہ کچھ اور ہے۔ میرے دریافت کرنے پہ انہوں نے ایک بہت خوبصورت جواب دیا۔ کہنے لگیں کہ


دروازہ بند کرنے کا مطلب، در حقیقت ماضی کا دروازہ بند کر کہ حال میں قدم رکھنا ہے۔ اگر ہم دروازہ کھلا رہنے دیں گے تو ماضی کا خیال بھی ہمارے ساتھ ہی رہے گا۔ 

انکی یہ بات اس وقت تو سمجھ میں نہیں آئی لیکن آج سوچتی ہوں کہ بی جی نے بلکل ٹھیک کہا تھا۔ اگر دروازہ بند نہ کیا جائے تو ماضی کی یاد اور خیالات پیچھا نہیں چھوڑتے اور انہی کی یاد میں ہم اپنے حال کو بھی اجیرن کیے رکھتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے سنہری یا تاریک ماضی کی گٹھریاں اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ اپنے تاریک یا تابناک ماضی کی یادوں میں کھو کر اپنے حال کو سہی طرح نہیں گزار پاتے۔ کچھ یہی حال میرا بھی ہے۔ اپنے ماضی کی یادوں میں کھو کر مجھے اپنے حال کو تسلیم کرنے میں مشکل ہو رہی ہے۔ بی جی کی باتوں کو سوچ کر آج بھی ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ بی جی مجھے آج بھی دروازہ بند کرنے کا ہنر نہیں آیا۔
1 comments

لفظوں کی دنیا


آزاد نظم

لہجوں کی کرواہٹ، روئیوں کی تلخی سے جس دم
زندگی تھکنے سی لگتی ہے
اس لمحے میرے الفاظ بولتے ہیں
یہ مجھے گِر کہ سنبھلنا سکھاتے ہیں
زندگی سے لڑنا سکھاتے ہیں
میرے الفاظ میرا ہتھیار ہیں
میری زندگی کا دارومدار ہیں
کہ ان کے بنا میں کچھ بھی نہیں
میں لفظوں کی دنیا میں
اور
میرے الفاظ مجھ میں بستے ہیں۔ 
1 comments

کیا میں واقعی پاگل ہوں؟

 آج ایک عجیب کمنٹ ملا مجھے  
کیا تم پاگل تو نہیں ہو؟ سچ بتانا، کو ئی بچپن میں سر پر چوٹ آئی ہو؟ بہت ابنارمل ہیں تمہاری حرکتیں
اس ریمارک نے کچھ لمحے کے لیے واقعی مجھے سوچنے پہ مجبور کر دیا کہ کیا واقعی کچھ ایسا ہے؟ اس کے ساتھ ہی میرا ذہن ماضی کی بھول بھلیوں میں کھوتا چلا گیا۔ پاکستان میں گزارے ہوئے بچپن کے وہ لمحات ذہن کی سکرین پر ابھرنے لگے جب گھر سے لے کے جانے والے لنچ باکس میں موجود کھانا میں عموماّ پرندوں کو ڈال دیا کرتی تھی اور ساتھ میں ملنے والی پاکٹ منی اپنی اس دوست کو دے دیا کرتی تھی جس کے گھر کے مالی حالات ٹھیک نہیں تھے۔ اس بات کا علم جب گھر والوں کو ہوا تو انہوں نے بھی یہی کہا تھا کہ پاگل تو نہیں ہو؟ پھر تو مانیے، زندگی بھر اس لاین نے میرا پیچھا ہی نہیں چھوڑا۔ اگر اپنے بچائے ہوئے پیسے کسی غریب کو دے دیئے، اگر کسی کی مدد کی غرض سے ، کمیونٹی سنٹر میں ذرا دیر تک بیٹھ گئی، اگر پڑھائی ختم کر کہ واپس پاکستان جانے کا نام لیا، اگر ملکی سیاست میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، کسی دو دوستوں کے درمیان غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی، کسی سے غصے کے جواب میں 
اچھے طریقے سے بات کرنے کی کوشش کی ، ان سب کے جواب میں یہی لاین سننے کو ملی کہ  تم پاگل تو نہیں ہو۔ 

مجھے واقعی لگتا ہے کہ میں پاگل ہوں۔ اگر اس دور حاضر میں، ایک حساس دل رکھنا پاگل پن ہے تو ہاں میں پاگل ہوں۔ اگر اپنے نفع و نقصان کو ایک طرف رکھتے ہوئے دوسروں کے لیے سوچنا پاگل پن ہے تو ہاں میں پاگل ہوں۔ اگر اپنی ذات سے بڑھ کہ انسانیت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بارے میں سوچنا پاگل پن ہے تو ہاں میں پاگل ہوں ۔ اور میرا خیال ہے کہ عصرِ حاضر میں جن انفرادی و اجتماعی مشکلات کا ہم شکار ہیں ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے، ہمیں اس خود غرضی والی عقلمندی کے طوق کو اتار کر، اس بے غرضی والے پاگل پن کا شکار ہونا پڑے گا۔ آج کی دنیا میں ہمیں ایسے عقلمندوں کی ضرورت نہیں جو اپنے فائدے کے لئے دوسروں کو تقسیم کر رہے ہیں اور قوموں اور ملکوں میں تفرقہ پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج کی دنیا ایسے پاگلوں کی تلاش میں ہے جو آج بھی اپنی ذات سے بڑھ کہ سوچ سکیں اور دنیا میں پھیلتے ہوئے اس انتشار کو بڑھنے سے روک سکیں۔ 
Wednesday, June 5, 2013 0 comments

درد کا موسم




بہت دنوں سے میرے شہر کی فضاوں پر

دکھ کا بادل ہے منڈلایا ہوا

درد کا موسم سا ہے چھایا ہوا

کلیاں کھلتی تھیں جہاں، خوشیاں بکھرتی تھیں جہاں

اب تو ہر سمت وہاں پھیلا ہے خاموشی کا سایہ

روشن چہرے، بلند ارادے، امیدوں کے چراغ تھے جنکی جاگیر

کیوں وہاں آج ہر چہرہ ہے، کملایا ہوا، گھبرایا ہوا؟

کیوں ہوا، کیسے ہوا، کس نے کیا، ذہن ہے انہی سوالوں میں الجھا ہوا

کس سے طلب کریں ہم اسکا جواب، ہر چہرہ ہے بکھرا ہوا، مرجھایا ہوا

مت ہو اُداس، پونچھ لو اِن آنسووں کو اے میرے اہلِ وطن

درد کے اس موسم کو بدل دینے کا وقت ہے آیا ہوا

مٹا کہ سب بغض و کدورت، آو، تجدیدِ عہدِ وفا کریں

لے جاییں گے پاکستان کو اس راہ پر

جسکا خواب ہے ہم نے دل میں سجایا ہوا









1 comments

تلاشِ معانیت



ہم میں سے ہر کوئی معانیت کی تلاش میں رہتا ہے۔ کوئی زندگی کا مقصد تلاش کرنے میں لگا ہے تو کوئی باطنی اور روحانی منازل طے کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہے۔ کچھ لوگ زیادہ سے زیادہ محنت کر کہ کامیاب ہونےاور ترقی کی منازل طے کرنے کو پرفیکشن یا معا نیت کی انتہا سمجھتے ہیں تو کچھ لوگ روحانیت کی منازل طے کر کہ خودی کو کھو کہ اپنی ذات کے پانے کےعمل کو معانیت یا مقصدیت کی انتہا سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہر ایک کا فلسفہ اور دیکھنے کا نظریہ مختلف نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ کس کی ڈیفینشن یا کس کا نقطہِ نظر سہی ہے کیونکہ کسی بھی چیز کے سہی یا غلط ہونے کا انحصار ہماری انفرادی ویلیوز اور حالات و واقعات پہ ہوتا ہے۔ کسی کے لیے کوئی چیز کسی ایک وقت میں سہی جبکہ وہی چیز کسی اور وقت میں غلط بھی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح، کسی ایک کے لیے جو بات بلکل قابلِ قبول اور سہی ہو، وہی بات کسی دوسرے کے لیے بلکل نا مناسب اور غلط ہو سکتی ہے۔


اس بات کے پیشِ نظر، غلط یا سہی، یا مادیت یا روحانیت کی بحث چھوڑ کہ توازن یا بیلنس کی سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ شاید اسی لیے دین اور دنیا کو ساتھ لے کہ چلنے کی بات کی جاتی ہے۔ مادیت اور روحانیت کا امتزاج ہی وقت کی ضرورت ہے اور شاید اسی کے ذریعے ہی معانیت کی حدود تک پہنچا اور انہیں پار کیا جا سکتا ہے۔

Powered by Blogger.
 
;