Showing posts with label میرا انتخاب. Show all posts
Showing posts with label میرا انتخاب. Show all posts
Saturday, June 22, 2013 0 comments

Have Mercy on me My Soul



This has been my favorite poem from last 5 years...


Why are you weeping, my Soul?
Knowest thou my weakness?
Thy tears strike sharp and injure,
For I know not my wrong.
Until when shalt thou cry?
I have naught but human words to interpret your dreams,
Your desires, and your instructions.

Look upon me, my Soul;
I have consumed my full life heeding your teachings.
Think of how I suffer!
I have exhausted my life following you.

My heart was glorying upon the throne,
But is now yoked in slavery;
My patience was a companion,
But now contends against me;
My youth was my hope,
But now reprimands my neglect.

Why, my Soul, are you all-demanding?
I have denied myself pleasure
And deserted the joy of life
Following the course which you impelled me to pursue.
Be just to me,
Or call Death to unshackle me,
For justice is your glory.

Have mercy on me, my Soul.
You have laden me with Love until I cannot carry my burden.
You and Love are inseparable might;
Substance and I are inseparable weakness.
Will e'er the struggle cease between the strong and the weak?

Have mercy on me, my Soul.
You have shown me Fortune beyond my grasp.
You and Fortune abide on the mountain top;
Misery and I are abandoned together in the pit of the valley.
Will e'er the mountain and the valley unite?

Have mercy on me, my Soul.
You have shown me Beauty,
But then concealed her.
You and Beauty live in the light;
Ignorance and I are bound together in the dark.
Will e'er the light invade darkness?

Your delight comes with the Ending,
And you revel now in anticipation;
But this body suffers with the life
While in life.
This, my Soul, is perplexing.

You are hastening toward Eternity,
But this body goes slowly toward perishment.
You do not wait for him,
And he cannot go quickly.
This, my Soul, is sadness.

You ascend high, though heaven's attraction,
But this body falls by earth's gravity.
You do not console him,
And he does not appreciate you.
This, my Soul, is misery.

You are rich in wisdom,
But this body is poor in understanding.
You do not compromise,
And he does not obey.
This, my Soul, is extreme suffering.

In the silence of the night you visit The Beloved
And enjoy the sweetness of His presence.
This body ever remains,
The bitter victim of hope and separation.
This, my Soul, is agonizing torture.
Have mercy on me, my Soul!

Khalil Jabran
Sunday, June 16, 2013 0 comments

وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے



  • کوئٹہ میں کل ایک یونیورسٹی کی طالبات کی بس کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جو کہ بہت دکھ بھرا اور قابل مذمت فعل تھا۔ نا جانے تعلیم کی خاطر گھر سے نکلنے والی ان بچیوں سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے ۔ ایسے حملے ایک مخصوص ذہنی فکر کی عکاسی کرتے ہیں جو آج بھی خواتین کو گھر کی چار دیواری سے باہر دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ ناہید کشور صاحبہ نے ایسی ذہنی فکر کی اس نظم میں بہت خوب عکاسی کی ہے۔

    وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
    وہ جو علم سے بھی گریز پا
    کریں ذکررب کریم کا
    وہ جو حکم دیتا ہے علم کا
    کریں اس کے حکم سے ماورا یہ منادیاں
    نہ کتاب ہو کسی ہاتھ میں
    نہ ہی انگلیوں میں قلم رہے
    کوئی نام لکھنے کی جانہ ہو
    نہ ہو رسم اسم زناں کوئی

    وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
    کریں شہر شہر منادیاں
    کہ ہر ایک قدِ حیا نما کو نقاب دو
    کہ ہر ایک دل کے سوال کو یہ جواب دو
    نہیں چاہیے کہ یہ لڑکیاں اڑیں طائروں کی طرح بلند
    نہیں چاہیے کہ یہ لڑکیاں کہیں مدرسوں کہیں دفتروں
    کا بھی رخ کریں
    کوئی شعلہ رو، کوئی باصفا، ہے کوئی
    توصحنِ حرم ہی اس کا مقام ہے
    یہی حکم ہے یہ کلام ہے۔

    وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
    وہ یہیں کہیں ہیں قریب میں
    انہیں دیکھ لو، انہیں جان لو
    نہیں ان سے کچھ بھی بعید، شہرِ زوال میں
    رکھو حوصلہ، رکھو یہ یقین
    کہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
    !وہ ہیں کتنے چھوٹے وجود میں

    کشور ناہید
Saturday, June 8, 2013 0 comments

سائیاں ذات ادھوری ہے


سائیاں ذات ادھوری ہے، سائیاں بات ادھوری ہے
سائیاں رات ادھوری ہے، سائیاں مات ادھوری ہے
دشمن چوکنا ہے لیکن، سائیاں گھات ادھوری ہے

سائیاں رنج ملال بہت، دیوانے بے حال بہت
 قدم قدم پر جال بہت، پیار محبت کال بہت
اور اس عالم میں سائیاں، گزر گئے ہیں سال بہت

سائیاں ہر سو درد بہت، موسم موسم سرد بہت
رستہ رستہ گرد بہت، چہرہ چہرہ زرد بہت
اور ستم ڈھانے کی خاطر، تیرا اک اک فرد بہت

سائیاں تیرے شہر بہت، گلی گلی میں زہر بہت
خوف زدہ ہے دہر بہت، اس پہ تیرا قہر بہت
کالی راتیں اتنی کیوں، ہم کو اک ہی پہر بہت

سائیاں دل مجبور بہت، روح بھی چور و چور بہت
پیشانی بے نور بہت، اور لمحے مغرور بہت
ایسے مشکل عالم میں، تو بھی ہم سے دور بہت
سائیاں راہیں تنگ بہت، دل کم ہیں اور سنگ بہت
پھر بھی تیرے رنگ بہت، خلقت ساری دنگ بہت
سائیاں تم کو آتے ہے، بہلانے کے ڈھنگ بہت

سائیاں میرے تارے گم، رات کے چند سہارے گم
سارے جان سے پیارے گم، آنکھیں گم نظارے گم
ریت میں آنسو ڈوب گئے، راکھ میں ہوئے شرارے گم

سائیاں رشتے ٹوٹ گئے، سائیاں اپنے چھوٹ گئے
سچ گئے اور جھوٹ گئے، تیز مقدر پھوٹ گئے
جانے کیسے ڈاکو تھے، جو لوٹے ہوئوں کو لوٹ گئے

سائیاں تنہا شاموں میں، چنے گئے ہیں باموں میں
چاہت کے الزاموں میں، شامل ہوئے ہے غلاموں میں
اپنی ذات نہ ذاتوں میں، اپنا نام نہ ناموں میں

سائیاں ویرانی کے صدقے، اپنی یزدانی کے صدقے
جبر انسانی کے صدقے، لمبی زندانی کے صدقے
سائیاں میرے اچھے سائیاں، اپنی رحمانی کے صدقے

سائیاں میرے درد گھٹا، سائیاں میرے زخم بجھا
سائیاں میرے عیب مٹا، سائیاں کوئی نوید سنا
اتنے کالے موسم میں، سائیاں اپنا آپ دکھا

فرحت عباس شاہ
Wednesday, June 5, 2013 1 comments

اے میرے کبریا


اے مرے کبریا۔۔۔۔!۔


اے انوکھے سخی!۔

اے مرے کبریا!!۔

میرے ادراک کی سرحدوں سے پرے

میرے وجدان کی سلطنت سے ادھر

تیری پہچان کا اولیں مرحلہ!۔

میری مٹی کے سب ذائقوں سے جدا!۔

تیری چاہت کی خوشبو کا پہلا سفر!!۔

میری منزل؟

تیری رہگزر کی خبر!۔

میرا حاصل؟

تری آگہی کی عطا!!۔

میرے لفظوں کی سانسیں

ترا معجزہ!۔

میرے حرفوں کی نبضیں

ترے لطف کا بے کراں سلسلہ!۔

میرے اشکوں کی چاندی

ترا آئینہ!۔

میری سوچوں کی سطریں

تری جستجو کی مسافت میں گم راستوں کا پتہ!۔

میں مسافر ترا ۔۔۔۔ (خود سے نا آشنا)۔

ظلمتِ ذات کے جنگلوں میں گھرا

خود پہ اوڑھے ہوۓ کربِ وہم وگماں کی سُلگتی رِدا

ناشناسائیوں کے پرانے مرض

گُمراہی کے طلسمات میں مبتلا

سورجوں سے بھری کہکشاں کے تلے

ڈھونڈتا پھر رہا ہوں ترا نقش پا ۔ ۔ ۔ !!۔


اے انوکھے سخی!۔


اے مرے کبریا!!۔

کب تلک گُمراہی کے طلسمات میں؟

ظلمتِ ذات میں

ناشناسائیوں سے اَٹی رات میں

دل بھٹکتا رہے

بھر کے دامانِ صد چاک میں

بے اماں حسرتوں کا لہو

بے ثمر خواہشیں

رائیگاں جستجو!!۔


اے انوکھے سخی!۔


اے مرے کبریا!!۔

کوئی رستہ دکھا

خود پہ کُھل جاؤں میں

مجھ پہ افشا ہو تُو'
اے مرے کبریا!!۔

کبریا اب مجھے

لوحِ ارض و سما کے

سبھی نا تراشیدہ پوشیدہ

حرفوں میں لپٹے ہوئے

اسم پڑھنا سکھا

اے انوکھے سخی!۔

اے مرے کبریا!۔


میں مسافر ترا
Powered by Blogger.
 
;