Tuesday, June 11, 2013

ڈرون اٹیکز ، کیا حقیقت، کیا افسانہ؟







نو سال پہلے 2004 میں پہلا ڈرون اٹیک ہوا تھا اور اس کے بعد اب تک تقریباً 360 کے قریب ڈرون اٹیکز ہو چکے ہیں، جس میں بہت سے بے گناہ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھےہیں۔ کچھ دن قبل ڈرون اٹیکز کی ایک تازہ ترین لہر دیکھنے میں آئی۔ گو پاکستانی حکومت نے گاہے بگاہے ان حملوں کی مذمت کی ہے اور اسے پاکستان کی خود مختاری اور اقوام متحدہ کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی افواج کی جانب سے اس سلسلے میں بہت سے متضاد بیانات و حرکات دیکھنے میں آئیں جو بہت سے سوالات کھڑے کرتی ہیں۔ ان کچھ متضاد بیانات کی مثال درج ذیل ہیں۔


پاکستانی حکومت ایک طرف، ڈرون اٹییکز کو پاکستان کی خود مختاری اور انٹرنیشل قوانین کی کھلی خلاف ورزی مانتی ہے، وہیں دوسری طرف،پاکستانی حکومت امریکہ سے ان ڈرون اٹیکز پر مکمل ذاتی کنٹرول بھی مانگتی ہے۔ یعنی لگتا ایسا ہے کہ پاکستانی حکومت کا مقصد، ڈرون اٹیکز کا مکمل خاتمہ نہیں بلکہ انکا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔
ویکی لیکس کے مطابق، میی 2009 میں، آصف علی زرداری صاحب نے امریکی سنیٹر، Patrick Leahy
سے خود یہ کہا تھا کہ :

"give me the drones so my forces can take out the militants [so that] we cannot be criticised by the media or anyone else for actions our Army takes to protect our sovereignty".

اس کے علاوہ یہ بات بھی اب کسی سے چھپی نہیں ہے کہ 2004 سے ہی پاکستانی حکومت اور ملٹری اور امریکہ
کے درمیان ڈرون اٹیکیز کے معاملے میں ایک خفیہ معاہدہ طے پا چکا تھا، اور اسی مقصد کے تحط، شمسی اورشہبازایر بیسز کا کنٹرول بھی 2011 تک "سی آئی اے"
کو ڈرون اٹیکیز کے لیئے فراہم کیا گیا۔ سلالہ بیس کے واقعے کے بعد یہ کنٹرول واپس پاکستانی افواج نے سنبھال لیا۔

لیکن اس سب کے باوجود پاکستان کا واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ ابھی تک ڈرون کے بارے میں تمام حقیقت کو منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔ اگر ڈرون حملوں کو واقعی ہم روکنا چاہتے ہیں تو کچھ باتوں کا نفاظ فوری طور پر کرنا ہو گا۔

۔1 ڈرون حملوں کے حوالے اس سیکریسی کی فضا کو ختم ہونا چاہیے اور نیوٹرل مبصرین کو اس علاقے تک رسائی حاصل ہونی چاہئے تا کہ زمینیی حقائق کو بہتر طور پہ عوام کے سامنے لایا جا سکے۔

۔2 ڈرون حملوں کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی پیچان کو سامنے لایا جانا چاہیے تا کہ اس بات کا بہتر طور پہ پتہ چل سکے کہ کتنے بے گناہ لوگ اس حملوں سے متاثر ہوئے ہیں۔

۔3 پاکسنانی حکومت اور افواج کو یک زبان ہو کہ بہت صاف الفاظ میں ان ڈرون حملوں کے خلاف سٹینڈ لینا چاہیے اور اس میں کوئی ڈیپلومیسی کا راسنہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔


۔4  امریکہ ابھی تک افغانستان کے مسئلے میں پاکسنان اور پاکسنانی افواج پہ بہت زیادہ ڈپینڈ کرتاہے اور افغانستان سے 2014 میں ہونے والے کامیاب "ایگزٹ" میں بھی پاکستان کا کردار بہت اہم ہو گا تو پاکستان ان تمام معاملات میں مدد کو ڈرون حملوں کے روکے جانے سے مشروط کر سکتا ہے۔

5۔5 شمالی وزیرستان اور فاٹا کے علاقوں پر مشتمل یا تو ایک الگ صوبہ بنایا جا سکتا ہے یا اسے موجودہ "کے پی کے" کا حصہ بنایا جا سکتا ہے اور اسکا کنٹرول مقامی قبائلی لیڈرز کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح امریکہ کے اس پواینٹ کو ختم کیا جا سکے گا کہ چونکہ یہ علاقے پاکسنان کی حکومت کے دائرہ عمل میں نہیں آتے اس لیے ان پر حملہ پاکسنان کی خود مختاری پر حملہ نیہں ہے اور ان علاقوں کو پاکستان کا صوبہ بنا کر یہاں کے لوگوں کو تعلیم، صحت، نوکریاں اور دوسری تمام سہولیات میسر کی جا سکیں گی۔





0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.
 
;