- کوئٹہ میں کل ایک یونیورسٹی کی طالبات کی بس کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جو کہ بہت دکھ بھرا اور قابل مذمت فعل تھا۔ نا جانے تعلیم کی خاطر گھر سے نکلنے والی ان بچیوں سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے ۔ ایسے حملے ایک مخصوص ذہنی فکر کی عکاسی کرتے ہیں جو آج بھی خواتین کو گھر کی چار دیواری سے باہر دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ ناہید کشور صاحبہ نے ایسی ذہنی فکر کی اس نظم میں بہت خوب عکاسی کی ہے۔وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئےوہ جو علم سے بھی گریز پاکریں ذکررب کریم کاوہ جو حکم دیتا ہے علم کاکریں اس کے حکم سے ماورا یہ منادیاںنہ کتاب ہو کسی ہاتھ میںنہ ہی انگلیوں میں قلم رہےکوئی نام لکھنے کی جانہ ہونہ ہو رسم اسم زناں کوئیوہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئےکریں شہر شہر منادیاںکہ ہر ایک قدِ حیا نما کو نقاب دوکہ ہر ایک دل کے سوال کو یہ جواب دونہیں چاہیے کہ یہ لڑکیاں اڑیں طائروں کی طرح بلندنہیں چاہیے کہ یہ لڑکیاں کہیں مدرسوں کہیں دفتروںکا بھی رخ کریںکوئی شعلہ رو، کوئی باصفا، ہے کوئیتوصحنِ حرم ہی اس کا مقام ہےیہی حکم ہے یہ کلام ہے۔وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئےوہ یہیں کہیں ہیں قریب میںانہیں دیکھ لو، انہیں جان لونہیں ان سے کچھ بھی بعید، شہرِ زوال میںرکھو حوصلہ، رکھو یہ یقینکہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے!وہ ہیں کتنے چھوٹے وجود میںکشور ناہید
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
Powered by Blogger.
0 comments:
Post a Comment