Sunday, June 16, 2013

وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے



  • کوئٹہ میں کل ایک یونیورسٹی کی طالبات کی بس کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جو کہ بہت دکھ بھرا اور قابل مذمت فعل تھا۔ نا جانے تعلیم کی خاطر گھر سے نکلنے والی ان بچیوں سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے ۔ ایسے حملے ایک مخصوص ذہنی فکر کی عکاسی کرتے ہیں جو آج بھی خواتین کو گھر کی چار دیواری سے باہر دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ ناہید کشور صاحبہ نے ایسی ذہنی فکر کی اس نظم میں بہت خوب عکاسی کی ہے۔

    وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
    وہ جو علم سے بھی گریز پا
    کریں ذکررب کریم کا
    وہ جو حکم دیتا ہے علم کا
    کریں اس کے حکم سے ماورا یہ منادیاں
    نہ کتاب ہو کسی ہاتھ میں
    نہ ہی انگلیوں میں قلم رہے
    کوئی نام لکھنے کی جانہ ہو
    نہ ہو رسم اسم زناں کوئی

    وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
    کریں شہر شہر منادیاں
    کہ ہر ایک قدِ حیا نما کو نقاب دو
    کہ ہر ایک دل کے سوال کو یہ جواب دو
    نہیں چاہیے کہ یہ لڑکیاں اڑیں طائروں کی طرح بلند
    نہیں چاہیے کہ یہ لڑکیاں کہیں مدرسوں کہیں دفتروں
    کا بھی رخ کریں
    کوئی شعلہ رو، کوئی باصفا، ہے کوئی
    توصحنِ حرم ہی اس کا مقام ہے
    یہی حکم ہے یہ کلام ہے۔

    وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
    وہ یہیں کہیں ہیں قریب میں
    انہیں دیکھ لو، انہیں جان لو
    نہیں ان سے کچھ بھی بعید، شہرِ زوال میں
    رکھو حوصلہ، رکھو یہ یقین
    کہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
    !وہ ہیں کتنے چھوٹے وجود میں

    کشور ناہید

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.
 
;