Monday, June 17, 2013 0 comments

سلوٹیں

ہیومن فوٹو گرافی یا پنٹنگز میں ہمیشہ سے ہی جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ      متاثر کیا ہے وہ  آنکھیں ہیں۔ آنکھیں قدرت کا ایک بہت حیرت انگیز تحفہ ہیں جو انسان کے اندر کی حالت کو بخوبی بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ کبھی جھوٹ نہیں بولتیں ۔ یہ دل کی تختی پہ لکھے سب خوشی، غمی، اداسی، مایوسی کے الفاظ کو ہو بہو بیان کر دیتی ہیں۔ ہاں انہیں پڑھنے کا ہنر ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا۔     
اور اگر ہو بھی تو ہر کویئ اسے اپنے زاویہ نظر کے مطابق پڑھتا ہے۔
 میری بھی یہاں ان تصویروں کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھنے اور انٹرپریٹ کرنے کی کوشش ہو گی۔
آج کی تصویر

Veil by Manny Librodo.


سلوٹیں ہیں میرے چہرے پہ تو حیرت کیوں ہے؟
زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا
Sunday, June 16, 2013 0 comments

وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے



  • کوئٹہ میں کل ایک یونیورسٹی کی طالبات کی بس کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جو کہ بہت دکھ بھرا اور قابل مذمت فعل تھا۔ نا جانے تعلیم کی خاطر گھر سے نکلنے والی ان بچیوں سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے ۔ ایسے حملے ایک مخصوص ذہنی فکر کی عکاسی کرتے ہیں جو آج بھی خواتین کو گھر کی چار دیواری سے باہر دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ ناہید کشور صاحبہ نے ایسی ذہنی فکر کی اس نظم میں بہت خوب عکاسی کی ہے۔

    وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
    وہ جو علم سے بھی گریز پا
    کریں ذکررب کریم کا
    وہ جو حکم دیتا ہے علم کا
    کریں اس کے حکم سے ماورا یہ منادیاں
    نہ کتاب ہو کسی ہاتھ میں
    نہ ہی انگلیوں میں قلم رہے
    کوئی نام لکھنے کی جانہ ہو
    نہ ہو رسم اسم زناں کوئی

    وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
    کریں شہر شہر منادیاں
    کہ ہر ایک قدِ حیا نما کو نقاب دو
    کہ ہر ایک دل کے سوال کو یہ جواب دو
    نہیں چاہیے کہ یہ لڑکیاں اڑیں طائروں کی طرح بلند
    نہیں چاہیے کہ یہ لڑکیاں کہیں مدرسوں کہیں دفتروں
    کا بھی رخ کریں
    کوئی شعلہ رو، کوئی باصفا، ہے کوئی
    توصحنِ حرم ہی اس کا مقام ہے
    یہی حکم ہے یہ کلام ہے۔

    وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
    وہ یہیں کہیں ہیں قریب میں
    انہیں دیکھ لو، انہیں جان لو
    نہیں ان سے کچھ بھی بعید، شہرِ زوال میں
    رکھو حوصلہ، رکھو یہ یقین
    کہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
    !وہ ہیں کتنے چھوٹے وجود میں

    کشور ناہید
Wednesday, June 12, 2013 0 comments

اناؤں کے کھیل




یہ اناؤں کے کھیل بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں
سالوں کے رشتوں کو لمحوں میں روند دیتے ہیں
کہ ان میں جیتنا بھی در حقیقت مات ہوتا ہے
کہ ان کا نشانہ فقط ہماری ذات ہوتا ہے
یہ ایسی بیڑیاں ہیں کہ جن میں اک بار جکڑ لۓ جاٰییں
تو پھر رہائی ممکن نہیں رہتی
کوئی زور آزمائی ممکن نہیں رہتی
پھر مقدر میں فقط پچھتاوے رہ جاتے ہیں
عمروں پہ محیط پچھتاوے۔۔۔




Tuesday, June 11, 2013 0 comments

مجھ کو ایسے نہ خداؤں سے ڈرایا جاۓ






۔
0 comments

ڈرون اٹیکز ، کیا حقیقت، کیا افسانہ؟







نو سال پہلے 2004 میں پہلا ڈرون اٹیک ہوا تھا اور اس کے بعد اب تک تقریباً 360 کے قریب ڈرون اٹیکز ہو چکے ہیں، جس میں بہت سے بے گناہ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھےہیں۔ کچھ دن قبل ڈرون اٹیکز کی ایک تازہ ترین لہر دیکھنے میں آئی۔ گو پاکستانی حکومت نے گاہے بگاہے ان حملوں کی مذمت کی ہے اور اسے پاکستان کی خود مختاری اور اقوام متحدہ کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی افواج کی جانب سے اس سلسلے میں بہت سے متضاد بیانات و حرکات دیکھنے میں آئیں جو بہت سے سوالات کھڑے کرتی ہیں۔ ان کچھ متضاد بیانات کی مثال درج ذیل ہیں۔


پاکستانی حکومت ایک طرف، ڈرون اٹییکز کو پاکستان کی خود مختاری اور انٹرنیشل قوانین کی کھلی خلاف ورزی مانتی ہے، وہیں دوسری طرف،پاکستانی حکومت امریکہ سے ان ڈرون اٹیکز پر مکمل ذاتی کنٹرول بھی مانگتی ہے۔ یعنی لگتا ایسا ہے کہ پاکستانی حکومت کا مقصد، ڈرون اٹیکز کا مکمل خاتمہ نہیں بلکہ انکا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔
ویکی لیکس کے مطابق، میی 2009 میں، آصف علی زرداری صاحب نے امریکی سنیٹر، Patrick Leahy
سے خود یہ کہا تھا کہ :

"give me the drones so my forces can take out the militants [so that] we cannot be criticised by the media or anyone else for actions our Army takes to protect our sovereignty".

اس کے علاوہ یہ بات بھی اب کسی سے چھپی نہیں ہے کہ 2004 سے ہی پاکستانی حکومت اور ملٹری اور امریکہ
کے درمیان ڈرون اٹیکیز کے معاملے میں ایک خفیہ معاہدہ طے پا چکا تھا، اور اسی مقصد کے تحط، شمسی اورشہبازایر بیسز کا کنٹرول بھی 2011 تک "سی آئی اے"
کو ڈرون اٹیکیز کے لیئے فراہم کیا گیا۔ سلالہ بیس کے واقعے کے بعد یہ کنٹرول واپس پاکستانی افواج نے سنبھال لیا۔

لیکن اس سب کے باوجود پاکستان کا واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ ابھی تک ڈرون کے بارے میں تمام حقیقت کو منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔ اگر ڈرون حملوں کو واقعی ہم روکنا چاہتے ہیں تو کچھ باتوں کا نفاظ فوری طور پر کرنا ہو گا۔

۔1 ڈرون حملوں کے حوالے اس سیکریسی کی فضا کو ختم ہونا چاہیے اور نیوٹرل مبصرین کو اس علاقے تک رسائی حاصل ہونی چاہئے تا کہ زمینیی حقائق کو بہتر طور پہ عوام کے سامنے لایا جا سکے۔

۔2 ڈرون حملوں کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی پیچان کو سامنے لایا جانا چاہیے تا کہ اس بات کا بہتر طور پہ پتہ چل سکے کہ کتنے بے گناہ لوگ اس حملوں سے متاثر ہوئے ہیں۔

۔3 پاکسنانی حکومت اور افواج کو یک زبان ہو کہ بہت صاف الفاظ میں ان ڈرون حملوں کے خلاف سٹینڈ لینا چاہیے اور اس میں کوئی ڈیپلومیسی کا راسنہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔


۔4  امریکہ ابھی تک افغانستان کے مسئلے میں پاکسنان اور پاکسنانی افواج پہ بہت زیادہ ڈپینڈ کرتاہے اور افغانستان سے 2014 میں ہونے والے کامیاب "ایگزٹ" میں بھی پاکستان کا کردار بہت اہم ہو گا تو پاکستان ان تمام معاملات میں مدد کو ڈرون حملوں کے روکے جانے سے مشروط کر سکتا ہے۔

5۔5 شمالی وزیرستان اور فاٹا کے علاقوں پر مشتمل یا تو ایک الگ صوبہ بنایا جا سکتا ہے یا اسے موجودہ "کے پی کے" کا حصہ بنایا جا سکتا ہے اور اسکا کنٹرول مقامی قبائلی لیڈرز کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح امریکہ کے اس پواینٹ کو ختم کیا جا سکے گا کہ چونکہ یہ علاقے پاکسنان کی حکومت کے دائرہ عمل میں نہیں آتے اس لیے ان پر حملہ پاکسنان کی خود مختاری پر حملہ نیہں ہے اور ان علاقوں کو پاکستان کا صوبہ بنا کر یہاں کے لوگوں کو تعلیم، صحت، نوکریاں اور دوسری تمام سہولیات میسر کی جا سکیں گی۔





Sunday, June 9, 2013 0 comments

Struggler

I was a Struggler
wandering in all directions
trying to find the key to inner- satisfaction
I roamed in the city of wealth
it was all shiny, glossy and full of glamour
ready to indulge me in its charm
which contained nothing more than
Jealousy, Competition and Envy
I ran from there and entered
into the city of Spirituality
thinking that perhaps there I would find it
My ever lost inner-satisfaction
but after a matter of time
I realized that it was also corrupted
with hatred, prejudice and divisions
within religions, sects and groups
I ran from there also all Tired and disappointed
Thinking that perhaps My struggle will go in vain
There I saw a man, under a shade of a tree
 all worn out and close to dying
asking for help!!!
Out of awe and empathy that I felt for him
I looked after him day and night
without any desire of reward in return
But Reward I got in form of inner-satisfaction
That I was searching so earnestly all along
It was neither in plunging into the world
 Nor by abandoning it completely
It was hidden only in helping the fellow beings




0 comments

مسائل اپنی آنکھوں کے بڑے ہیں۔۔۔


Powered by Blogger.
 
;